تفریح کے نام پر سانپوں کا بے دردی سے قتل

Unas 07:57:00
  شہر قائد کے چڑیا گھر میں عید کے موقع پر ’میجک شو‘ میں اب تک 100 سے زائد سانپوں کو بے درری سے مارا جا چکا ہے۔ عید کے موقع پر کراچی چڑیا گھر میں گھومنے آنے والوں شہریوں کے لیے میجک شو میں ایک سیگمنٹ کا عنوان ’دی اسنیک ایٹنگ مین’ توجہ کا مرکز بناہوا ہے۔ ’دی اسنیک ایٹنگ مین‘ میں طالب نامی ایک شعبدہ باز سانپ کی گردن کو اپنے دانتوں سے توڑتا ہے اور کھال اتارنے کے بعد اسے کچا کھا جاتا ہے، وہ ایک بڑے ہجوم (جن میں زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے) کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ نواب شاہ سے تعلق رکھنے والے طالب نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ کافی عرصے سے ملک کے کئی شہروں میں شوز کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے کبھی کسی حکومتی عہدیدار نے نہیں روکا اور نہ ہی مجھ پر کوئی جرمانہ عائد کیا گیا۔ 31 سالہ طالب سانپ کو پکڑتے بھی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ کئی سال سے ٹھٹھہ میں سانپ کا شکار کررہے اور اپنے شوز میں سیکڑوں سانپوں کو مار چکے ہیں لیکن اس کے باوجود سانپوں کی تعداد میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہر قسم کے سانپ کھاجاتے ہیں جن میں کوبرا اور وائپرز وغیرہ بھی شامل ہیں تاہم اس قسم کے سانپ زیادہ آسانی سے نہیں ملتے. انہوں نے مزید بتایا کہ وہ بچپن ہی سے سانپ کھارہے ہیں اور سانپ کے زہر کے خلاف ان کے جسم میں مزاحمتی قوت بڑھ چکی ہے، سانپ کے کاٹنے اور اس کے زہر سے ان کے جسم پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ طالب نے سانپ کے ذائقے کے بارے میں بتایا کہ جب میں 7 سال کا تھا تو اس وقت سانپ نے مجھے کاٹا تھا اس کے بعد سے میں نے سانپ کو سزا دینے کے لیے ان کی گردن کو توڑ کر کھانا شروع کردیا اور آہستہ آہستہ مجھے سانپ کا ذائقہ اچھا لگنے لگا۔ انہوں نے بڑے فخر سے بتایا کہ میرے خیال میں لوگ میرے فن کو دیکھ کر زیادہ خوش ہوتے ہیں کیونکہ میرا فن لوگوں کو تفریح فراہم کرتا ہے۔ طالب مینڈک اور چھپکلی کھانے کے بھی بہت شوقین ہیں، جب ان کو کوئی سانپ نہیں ملتا تو وہ اپنے شو میں مینڈک اور چھپکلی کھا کر لوگوں کو محظوظ کرتے ہیں۔ مختلف چیزیں کھانے سے کیا وہ خود کو دوسرے سے مختلف انسان محسوس کرتے ہیں، اس حوالے سے انہوں نے جواب دیا کہ ’ہاں! میں ایک عام انسان سے خود کو زیادہ طاقت ور محسوس کرتا ہوں۔’ جانوروں پر ظلم وستم چڑیا گھر کی انتظامیہ کو جانوروں پر ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اور جانوروں کے حقوق کے حوالے سے شہریوں کا آگاہ کرنا چاہیے لیکن چڑیا گھر کی انتظامیہ تو خود اس میجک شو کا انعقاد کررہی ہے۔ اس حوالے سے چڑیا گھر کے ڈائریکٹر فہیم خان نے شو کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ‘صرف کچھ دنوں کے لیے میجک شو کا انعقاد کیا جارہا ہے، اس شو سے چڑیا گھر کی ساکھ متاثر نہیں ہورہی۔‘ لوگ اس شو کو دیکھنا پسند کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’عوام کی تفریح‘ کے لیے اس قسم کے شو کا انعقاد ہوتے رہنا چاہیے۔ وائلڈ لائف کنزرویٹر سندھ سیعد بلوچ نے چڑیا گھر کے منتظمین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘جانوروں پر ظم وستم پر مبنی شو’ سے جنگی حیات کو تباہ کرنے کے لیے عوام کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چڑیا گھر کے منتطمین کو جانوروں کے تحفظ کو فروغ دینے کے لیے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے محکمے کے عہدے دار جانوروں کو بے دردی سے مارنے کی تحقیقات کے لیے چڑیا گھر کا دورہ کریں گے۔ وائلڈ لائف کنزرویٹر سندھ سیعد بلوچ کے مطابق 1972 کے وائلڈ لائف آرڈینیس میں رینگنے والے جانور سانپوں، چھپکلیوں اور مینڈکوں وغیرہ کو خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست میں شامل نہیں رکھا گیا اور نہ ہی ان جانوروں کو مارنے پر سزا کا کوئی ذکر ہے تاہم ہم حیاتیاتی نظام کو تباہ کرنے کے خلاف اقدامات کرسکتے ہیں۔ ماہرین کئی برسوں سے حکومت سے سندھ وائلڈ لائف ایکٹ 2010 کے نفاذ کا مطالبہ کررہے ہیں. یہ ایکٹ 1972 کے وائلڈ لائف آرڈیننس کی جگہ لینے کیلئے تیار کیا گیا تھا جسے محکمہ قانون سے منظوری مل چکی ہے تاہم ابھی اسے قومی اسمبلی ابھی پیش ہونا ہے۔ مجوزہ ایکٹ میں ملک میں پہلی بار جنگلی جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے تجاویز پیش کی گئی ہیں، جس میں بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق مقامی سطح پر جانوروں کے تحفظ کو لازمی قرار دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ وائلڈ لائف کے ایک سابق عہدے دار کا کہنا ہے کہ کہ پہلے وائلڈ لائف کی فہرست میں صرف جنگلی جانوروں کو شامل رکھا جاتا تھا اور انہیں مارنے پر پابندی عائد کی گئی تھی لیکن بعد میں دوسرے جانوروں پر ظلم کے خدشات کے پیش نظر سب پر پابندی عائد کردی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ (1890 The Prevention of Cruelty to Animals Act) کا اب کوئی ذکر موجود نہیں جس کے تحت کسی بھی قسم کی جانوروں سے بدسلوکی اور ان کو قید کرنے والے پر سزا عائد کی جاتی تھی۔

Share this

Related Posts

Previous
Next Post »