رمضان المبارک کی سب سے اہم اور مقدس عبادت روزہ رکھنا ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے ڈرنا اور تقویٰ اختیار کرنا اﷲ کو بہت پسند ہے۔ روزے کو اس کی تمام مقررہ حدود کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہی روزے کی اصل روح ہے۔ روزہ کسی بھی طرح خود نمائی کا نام نہیں ہے۔ روزے کی حالت میں مسلمان اپنے روزمرہ کے امور بھی خوش اسلوبی سے نبھاتے ہیں۔
پاکستان میں بھی لوگ رمضان المبارک میں روز مرہ کے کاموں کے ساتھ ساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں نبھاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ دفتروں میں کام کرتے ہیں، کچھ مزدوری کرتے ہیں اور دیگر لوگ اپنے کاموں کی جگہوں پر صبح سویرے پہنچ جاتے ہیں۔ روزے میں اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں نبھانا نہ صرف دینی بل کہ معاشی، معاشرتی اور سماجی اعتبار سے بھی خصوصی توجہ اور اہمیت کا حامل موضوع ہے۔ اس سلسلے میں آج مختلف پیشوں کا جائزہ لیں گے۔
رمضان اور معلم
اگر آپ پیشے کے اعتبار سے ایک معلم ہیں تو آپ کا رمضان کے مہینے میں اپنی ذمے داریاں بہ طریق احسن نبھانا بہت ضروری ہے۔ جسمانی اعتبار سے صحت مند اور مکمل طور پر فعال مسلمان مرد و عورت پر روزہ اپنی تمام شرائط کے ساتھ فرض ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی پاکؐ نے فرمایا ’’ اور جو کوئی تم میں سے مکمل ایمان اور اﷲ کے اجر و ثواب کی نیت سے روزہ رکھے تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘
روزہ جسمانی طاقت اور توانائی کو بڑھاتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے پیارے نبیؐ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ عرب کی تپتی سرزمین پر آپؐ نے عملی طور پر نہ صرف روزے رکھے بل کہ تبلیغ اور تعلیم اسلام کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور اپنے صحابہ کرامؓ کے سامنے اس کا مظاہرہ انتہائی صبر اور برداشت کے ساتھ کیا۔ اسی طرح ایک معلم کی زندگی بھی اس کے طالب علموں کے لیے ایک مثال ہوتی ہے معلم کی تعلیمات، لب و لہجہ، آداب، اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ، خصوصاً رمضان کے حوالے سے ہمیشہ طلبا پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس لیے اساتذہ کو چاہیے کہ پوری ایمان داری اور خالص رب کی رضا کے لیے اپنی تمام تر پیشہ ورانہ ذمے داریوں کو نبھائیں، وقت پر اپنی ڈیوٹی پر پہنچیں، اپنی جماعتوں میں طلباء سے روزے کی اہمیت اور عملی زندگی میں اس کے اثرات کے متعلق کچھ وقت ضرور بات چیت کریں۔
رمضان اور فوج کی ذمے داریاں
تاریخ اسلام ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ جب مسلمان روزے سے ہوتے ہوئے بھی میدان جنگ میں اترے اور انتہائی بہادری سے لڑے۔ تعداد میں کم ہونے کے باوجود کام یابی سے ہم کنار، سرخ رو اور سر بلند رہے۔ روزہ فوج کی ذمے داریوں میں بھی کبھی حائل نہیں ہوتا بل کہ روزے کی حالت میں مسلم فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں مزید بہتری پیدا ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال فتح مکہ جیسا عظیم الشان واقعہ بھی ہے، جب مسلمان رمضان المبارک میں فاتحین کی حیثیت سے شہر مکہ میں داخل ہوئے۔
رمضان میں طبیب کی ذمے داریاں
علم طب یا حکمت کو انسانی زندگی میں ہمیشہ سے ہی بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔ موجودہ دور میں بھی طبیب صبح سویرے مسکراتے زندگی کی امید دلاتے جب اسپتال میں داخل ہوتے ہیں تو مریضوں کو اپنی آدھی بیماری ان کے حال احوال پوچھنے پر ہی کم ہوتی محسوس ہوتی ہے، یوں چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھنا اور مریضوں کو نئی زندگی کی نوید دینا ان کا اخلاقی فریضہ ہے۔
ممتاز مفکر ڈاکٹر الحکیمی فرماتے ہیں ’’رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں سے کوتاہی ممنوع ہے اور فطرت کے خلاف بھی۔ یہ تمام عوامل دفتروں میں کام کرنے والے دوسرے افراد پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔‘‘
روزہ اور مزدور
روزہ رکھ کر عام مزدوری کرنا اور سخت دھوپ میں کام کرنا انتہائی مشکل کام ہے اور گرم علاقوں اور بڑے شہروں میں یہ کام سرانجام دینا زیادہ محنت طلب کام ہے۔ مزدوروں کو چاہیے کہ ان دنوں اپنے کام کے اوقات پر نظرثانی کریں۔ اور کام کی جگہوں کے نزدیک ترین سایہ دار جگہوں کو تلاش کریں تاکہ جب دھوپ تیز ہوجائے تو ایسی جگہوں کو تھوڑی دیر آرام کی غرض سے استعمال کرسکیں۔ اور ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ جو خالصتاً اﷲ کے لیے ہے اور اس کا اجر بھی خود اﷲ پاک خود دے گا۔
رمضان کے مہینے اﷲ تعالیٰ کی مہربانیاں ویسے ہی کئی گنا زیادہ ہوجاتی ہیں اسی لیے ایک مسلمان جتنی زیادہ تکالیف روزے کے دوران برداشت کرتا ہے اﷲ اس پر اتنی ہی خاص مہربانی زیادہ کردیتا ہے۔ غرض زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو اور ہم کسی بھی پیشے سے تعلق رکھتے ہوں روزہ اپنے صحت مند اثرات ضرور مرتب کرتا ہے۔ روزہ بے شمار طبی فوائد رکھتا ہے اس لیے روزے کا احترام کریں اور اس کو خالص اﷲ تعالیٰ کے لیے رکھیں اور پھر اپنی زندگی میں اﷲ کے انعام و اکرام کا مشاہدہ کریں۔